Donald Trump

ٹرمپ کا پچھلا دور اور پاکستان: ایک جامع جائزہ

ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارتی دور (2017–2021) امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے لیے ایک پیچیدہ اور تناؤ سے بھرا عرصہ تھا۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر جنوبی ایشیا کے حوالے سے، روایتی ڈپلومیٹک رویوں سے ہٹ کر ایک غیر روایتی اور اکثر تنقیدی انداز اختیار کرتی تھی۔ پاکستان، جو کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم اتحادی رہا تھا، کو ٹرمپ انتظامیہ کے دوران کئی بار تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس مضمون میں ہم ٹرمپ کے دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے اہم موڑ، چیلنجز، اور اس کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
**1۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور تنقید**
ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت کے آغاز ہی سے پاکستان پر “دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے” کا الزام لگایا۔ جنوری 2018 میں انہوں نے ایک متنازعہ ٹویٹ میں کہا کہ _”پاکستان نے ہمیں صرف جھوٹ اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں دیا”_۔ اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کو امداد میں کٹوتی کا اعلان کیا، جس میں فوجی امداد بھی شامل تھی۔ تقریباً **$300 ملین** کی امداد معطل کردی گئی، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے “دہشت گردی کے خلاف ناکافی اقدامات” کا نتیجہ قرار دیا۔
پاکستان نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70,000 سے زائد جانیں کھو چکا ہے اور امریکہ کی جانب سے یکطرفہ فیصلے ناانصافی پر مبنی ہیں۔
**2۔ افغانستان پالیسی اور پاکستان کا کردار**
ٹرمپ کی افغانستان پالیسی نے پاکستان کے لیے نئے چیلنجز پیدا کیے۔ انہوں نے افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کیا، لیکن ساتھ ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھایا۔ امریکہ کا موقف تھا کہ پاکستان طالبان کو خفیہ حمایت دے رہا ہے، جبکہ پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امن مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔
2020 میں **دوہا معاہدہ** (امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ) کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کچھ سفارتی کریڈٹ ملا، لیکن ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی نمایاں رہی۔
**3۔ چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات کا اثر**
ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے ساتھ پاکستان کے گہرے تعلقات (خاص طور پر **CPEC** منصوبے) کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ منصوبہ پاکستان کو چین کے قرضوں کے جال میں پھنسا سکتا ہے۔ دوسری جانب، ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ استراتژک شراکت داری کو فروغ دیا، جس نے پاکستان کو علاقائی طور پر دباؤ میں ڈال دیا۔
بھارت کے ساتھ ٹرمپ کی قربت نے کشمیر کے تنازعے پر پاکستان کی آواز کو بین الاقوامی فورمز پر کمزور کیا، خاص طور پر 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد۔
**4۔ ڈرون حملے اور سلامتی کے مسائل**
ٹرمپ کے دور میں پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ یہ حملے “ہدف شدہ دہشت گردوں” کے خلاف کیے گئے، لیکن پاکستان نے انہیں اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔ 2017 میں امریکہ کا **اینڈرسن ایلیٹ** حملہ (جس میں 27 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے) نے تعلقات کو مزید کشیدہ کردیا۔
**5۔ اقتصادی دباؤ اور FATF**
ٹرمپ کے دور میں پاکستان کو **فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)** کی “گرے لسٹ” میں شامل کیا گیا، جس کے بعد بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستان پر دباؤ بڑھایا۔ امریکہ نے الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردی کو فنڈنگ روکنے میں ناکام ہے، جبکہ پاکستان نے اسے سیاسی اقدام قرار دیا۔
**6۔ مثبت اقدامات اور سفارتی کوششیں**
ٹرمپ کے دور میں کچھ مثبت پیش رفت بھی ہوئیں۔ مثال کے طور پر، 2018 میں پاکستان کی مدد سے امریکی شہری **ڈاکٹر شکیل آفریدی** کی رہائی، اور 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات۔ ان مواقع پر دونوں رہنماؤں نے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
**ٹرمپ دور کا ورثہ**
ٹرمپ کی پالیسیوں نے پاکستان کو یہ احساس دلایا کہ وہ امریکہ پر انحصار کم کرے اور چین، روس، اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو متنوع بنائے۔ دوسری جانب، افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو علاقائی استحکام کے نئے چیلنجز درپیش ہیں۔
ٹرمپ کے دور کی سب سے بڑی درس یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں توازن اور خودمختاری کو ترجیح دینا ہوگا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی طاقتیں تیزی سے اپنے مفادات کے گرد مرتکز ہو رہی ہیں۔
**اختتامیہ**
ٹرمپ کا دور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا عکاس تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، افغانستان کے مسئلے، اور اقتصادی دباؤ جیسے عوامل نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو جنم دیا۔ تاہم، اس دور نے پاکستان کو یہ موقع بھی دیا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے مرتب کرے اور علاقائی صلاحیتوں کو مضبوط بنائے۔ آنے والے سالوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا امریکہ اور پاکستان اپنے مشترکہ مفادات کے تحت ایک نئے تعاون کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں