
معاشرہ کیسے بنتا ہے؟ ایک کردار
انسان اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ گھر کے افراد ہوں، ہمسائے، دوست یا رشتے دار۔ جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے لگتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اور باہمی تعلقات قائم کرتے ہیں تو ایک معاشرہ بنتا ہے۔ معاشرہ انسانوں کے میل جول، تعاون، محبت اور اعتماد سے تشکیل پاتا ہے۔
ایک مضبوط معاشرہ صرف عمارتوں یا سڑکوں سے نہیں بنتا بلکہ اچھے انسانوں سے بنتا ہے۔ اگر لوگ ایماندار، محنتی، سچے، اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں تو وہ معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ لیکن اگر معاشرے کے لوگ خود غرض، جھوٹے، اور بددیانت ہوں تو وہاں بدامنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔
تعلیم، تربیت اور اخلاق معاشرے کے بنیادی ستون ہیں۔ جب بچوں کی تربیت گھروں میں محبت اور نرمی سے کی جاتی ہے، جب اسکولوں میں اخلاقی تعلیم دی جاتی ہے، اور جب بڑوں میں عدل و انصاف قائم ہوتا ہے تو معاشرہ مضبوط اور خوشحال بنتا ہے۔
اسلام نے بھی معاشرتی زندگی پر بہت زور دیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ اچھا معاشرہ وہ ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے لیے امن، محبت، اور خیر خواہی کا ذریعہ ہوں۔
لہٰذا معاشرہ تب ہی خوبصورت بنتا ہے جب ہم سب اپنی اپنی جگہ ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کریں۔ ہر فرد اگر سچائی، ایمانداری اور عدل کو اپنا اصول بنا لے تو معاشرہ خود بخود مثالی بن جائے گا۔
کردار:
علی ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہائشی ہے۔ وہ عام طالب علم ہے مگر اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے سب کے دل میں جگہ رکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ بڑوں کا احترام کرتا ہے، چھوٹوں سے محبت سے پیش آتا ہے اور جھوٹ سے نفرت کرتا ہے۔ اسکول میں وہ ایمانداری سے پڑھتا ہے اور دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ اگر کسی کا بستہ گر جائے تو فوراً اٹھا دیتا ہے، اگر کسی کے پاس قلم نہ ہو تو اپنا قلم دے دیتا ہے۔
علی کا یہ کردار ہمیں سکھاتا ہے کہ اچھا معاشرہ بنانا حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جب ہر فرد علی کی طرح اچھے اخلاق، سچائی اور خدمت کا جذبہ اپنائے گا تو ہمارا معاشرہ روشنی، امن اور محبت کا گہوارہ بن جائے گا۔