
برطانوی دعویٰ کا کانگریس پر اطلاق (از خان عبد الولی خان)
انگریز اپنے ذاتی آغراض کی وجہ سے اتنا اندھاہو گیا تھا کہ اسے کسی قسم کے اخلاق یا اصول کی پروا نہ تھی ایک طرف اگر مسلم لیگ کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی جس کا ثبوت انگریز کے اپنے کر ائے ہوئے انتخابات سے مل چکا تھا اور مسلمانوں کی اکثریت صوبوں میں بھی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں تھی اس کے باوجود انگریز انہیں یہ تسلی دیتا رہا کہ وہ اسے سب مسلمانوں کی واحد نمائندہ تسلیم کرتا ہے اس کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا ایک چوتھائیتھی۔ یعنی چالیس کروڑ میں سے 10 کروڑ مسلمان تھے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریز نے اس سوال سے بھی آنکھیں بند کر لی تھی کہ اگر غیر مسلموں کی اکثریتی صوبوں میں جناح صاحب اپنی حیثیت تسلیم کروانا چاہتے ہیں تو انگریز ان کی یہ حیثیت تسلیم کرتا ہے لیکن کیا جناح صاحب کانگریس کو بھی یہی حقوق مسلمانوں کی اکثریتی صوبوں میں دینے کو تیار ہیں اور آیا انگریز بھی یہی اصول مسلمانوں کے اکثر صوبوں میں تسلیم کرنے کو تیار ہے جو غیر مسلموں کی صوبوں میں وہ تسلیم کر چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگریز کونہ مسلمان کی پرواہ تھی اور نہ ہندو کی اسے تو اپنی مفادات کی فکر تھی اور وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھا جس میں اس کا ، اس کے تاج و تخت کا فائدہ ہو۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر کانگریس اور مسلم لیگ کا آپس میں فیصلہ نہیں ہوتا تو اقتدار انگریز کے پاس رہتا۔ انگریز کا فائدہ اس میں تھا کہ مسلم لیگ کو اس بات پر مجبور اور آمادہ کرے جس میں مسئلے کے حل اور تصفیئے کا کوئی امکان نہ ہو۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ اس طرح سے اقتدار مسلم لیگ کے بھی ہاتھ نہیں آتا اور اس کی اس ہٹ دھرمی کا فائدہ تمام تر فائدہ انگریز کو پہنچتا رہا۔